وسوسه = مذاهب اربعہ بعد کی پیداوار هیں ، اور هم اهل حدیث چوده سوسال سے چلے آرهے هیں

وسوسه = مذاهب اربعہ بعد کی پیداوار هیں ، اور هم اهل حدیث چوده
سوسال سے چلے آرهے هیں ، لہذا حق جماعت اهل حدیث هے ، مسلمانوں کو حنفی شافعی مالکی
حنبلی وغیره کے بجائے اهل حدیث جماعت میں شامل هونا چائیے
جواب = یہ وسوسہ مختلف اندازسے عوام کے ذهنوں میں ڈالا جاتا
هے ، اور ائمہ اسلام وعلماء امت کی کتب میں جہاں کہیں بهی لفظ ” اهل حدیث
” ان کونظرآتا هے ، تواس لقب کواپنے اوپرچسپاں کردیتے هیں ، اورپهرعوام سے کہتے
هیں دیکهو فلاں امام نے لکها هے فلاں کتاب میں لکها هے کہ ” اهل حدیث ” اهل
حق هیں ، اور ” اهل حدیث ” أهل السنة والجماعة هیں ، اور ” اهل حدیث
” هی فرقة ناجيه هے وغیره
اکثرعوام اس وسوسہ کو بوجہ جہالت کے قبول کرلیتے هیں ، اور فرقہ
جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل هوجاتے هیں ، اورپهران کو یہی وساوس سنائے اورپڑهائے
جاتے هیں ، خوب یاد رکهیں کہ هندوستان میں پیدا شده ” فرقہ جدید نام نہاد اهل
حدیث ” کا امت مسلمہ کے حقیقی ” أهل الحديث وأصحاب الحديث ” سے ذره
برابرتعلق ونسبت بهی نہیں هے ، یہ ان کا محض خیال و وسوسہ ودهوكہ هے اورکچهہ نہیں هے
چہ نسبت خاكـــــــــ راباعـــــالم پاكـــــــــ
عوام الناس کو کتب اسلاف سے لفظ ” أهل الحديث ” دکها
کرمطمئن کرلیا جاتا هے ، اوران کوبڑے زور وشور سے باورکرایا جاتا هے کہ ان ائمہ اسلام
کی کتب میں موجود اس نام ولقب سے مراد خاص هماری جماعت ” اهل حدیث ” هے ،
اوراس جماعت میں شامل لوگ مراد هیں ، ان کا یہ دعوی ایسا هی هے کہ اگرکسی کے بدن میں
صَفرَاء کا غلبہ هوجائے ، تواس کوهرچیزاسی رنگ میں نظرآتی هے ، جب کہ حقیقت اس کے خلاف
هوتی هے
أهل الحديث وأصحاب الحديث سے مراد کون ہیں ؟؟
أهل الحديث اورأصحاب الحديث سے مراد مُحدثین کرام کا طبقہ هے
، اس سے مرادوه لوگ هیں جن کوالله تعالی نے ” علم ُالحدیث ” کی عظیم دولت
سے مالامال کیا ، اورجن کی ساری زندگی حدیث پڑهنے پڑهانے میں گذری ، جنهوں نے اپنی
ساری عمر حدیث کی سماعت وقراءت وکتابت وروایت ودرایت حفظ ومعرفت میں گذاری ، جنهوں
نے حديث وآثار کوجمع کیا ، اورحدیث کی تحصیل کے لیئے مشرق ومغرب بحروبرکے اسفار بعیده
کواختیارکیا ، اورایک ایک حدیث کی سماعت کے لیئے کہاں سے کہاں پہنچے ، وغیره ذالک
کسی چیز کے ساتھ خاص اور أخص لوگوں کو (أهل الشيء) کہتے هیں
، اسی لیئے لغت عرب میں (أهل الرجل) آدمی کے ساتھ سب سے زیاده خاص اورقریب ترین لوگوں
کو کہا جاتا هے ، اسی طرح ” أهل الحديث ” بهی ان لوگوں کو کہا جاتا هے جو
حدیث اورعلوم حدیث کےساتھ هراعتبار سے سب سے زیاده خاص تعلق رکهتے هوں ، جوحدیث اورعلوم
حدیث میں هراعتبار سے کامل درجہ رکهتے هوں
امت مسلمہ میں أهل الحديث اورأصحاب الحديث کسی خاص فرقہ کا لقب
نہیں رها
امت مسلمہ کے محدثین کرام کے احوال و واقعات وسیرتوں پرمستقل
کتب موجود هیں ، لہذا یہ لقب امت میں کسی خاص فرقہ کے لیئے نہیں تها ، بلکہ امت میں
ایک علمی طبقہ کا نام هے ، اور” علم ُالحدیث ” کے حامل افراد واشخاص کو یہ
عظیم لقب ملا ، عام هے کہ وه حنفی هو یا شافعی ، مالکی ، حنبلی وغیره هو ، عام هے کہ
عرب سے هو یا عجم سے ، اسی طرح ” أهلُ التفسير ” کا لقب کسی متعین فرقہ کے
لیئے خاص نہیں هے ، بلکہ مُفسرین کرام کے لیئے هے ، جوعلوم القرآن کی دولت سے مالامال
هوں ، ایسا نہیں هے کہ هرکس وناکس جاهل ومجهول کو ” أهلُ التفسير ” کے نام
سے پکارا جائے ، ایسا هی ” أهلُ الفقه ” کا لقب فقهاء امت کے لیئے خاص هے
، ایسا هی ” أهلُ التاریخ ” مورخین کے لیئے ” أهلُ اللغة ” أهلُ
الأدب ” أهلُ الكلام ” وغیره القابات خاص قسم کے افراد کے استعمال هوئے ،
جن کواس علم وفن میں کامل مہارت وتبحرحاصل تها ، اور یہ بات اهل علم کے نزدیک اتنی
واضح و روشن هے ، کہ اس پر مزید دلائل دینا ایک بے فائده عمل هے ، اورچڑتے سورج کے
وجود پردلیل طلب کرنے کے مترادف هے
شيخ الإسلام ابن تیمیہ اور شيخ الإسلام نوَوِي رحمهما الله کے
نزدیک أهل الحديث کی تعریف
شيخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتے هیں کہ
هماری مراد ” أهل الحديث ” سے وه لوگ نہیں هیں ، جو
حدیث کی سماع یا کتابت یا روایت سے غافل هیں ، بلکہ هماری مراد ” أهل الحديث
” سے وه لوگ هیں ، جو ظاهری وباطنی طور پر حدیث کے حفظ ومعرفت وفہم میں اور ظاهری
وباطنی طورپر اس کی اتباع وپیروی میں اعلی درجہ رکهتے هوں
قال شيخ الإسلام رحمه الله : ونحن لا نعني بأهل الحديث المقتصرين
على سماعه أو كتابته أو روايته بل نعني بهم: كل من كان أحق بحفظه ومعرفته وفهمه ظاهراً
وباطناً واتباعه باطناً وظاهراً . (مجموع الفتاوى4/95 ) . دوسرے مقام پر شيخ الإسلام
ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتے هیں ، وأهل الحديث هم السلف من القرون الثلاثة ومن سلك
سبيلهم من الخلف . (مجموع الفتاوى6/355 ). أهل الحديث سے مراد قرون ثلاثه ( صحابہ ،
تابعین ، تبع تابعین ) کے سلف هیں ، اور وه جو بعد میں آنے والے ان کے راستے اور طریقہ
پرچلیں
.
امام نووی رحمه الله فرماتے هیں کہ ” أهل الحديث
” کسی ایک جماعت وگروپ کا نام نہیں هے ، جواس نام سے پہچانی جائے بلکہ ”
أهل الحديث ” ساری دنیا میں متفرق هیں ، بعض ان میں سے بہادر مجاهد هیں ، بعض
ان میں سے فقهاء هیں ، بعض ان میں سے محدثین هیں ، بعض ان میں سے زُهَّاد (عابد وصوفی
) هیں ، بعض ان میں سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے هیں ، بعض ان میں سے
دیگر أنواع خیر (وصلاح ) والے بهی هیں ، یہ ضروری نہیں هے کہ یہ ” أهل الحديث
” ایک جگہ جمع هوں ، بلکہ أقطار الأرض یعنی زمین کے کناروں میں متفرق هوتے هیں
.
وأهل الحديث ليسوا حزباً واحداً يعرف بهذا الاسم بل هم متفرقون
في أقطار المعمورة منهم شجعان مقاتلون ومنهم فقهاء ومنهم محدثون ومنهم زهاد وآمرون
بالمعروف وناهون عن المنكر ومنهم أهل أنواع أخرى من الخير ولا يلزم أن يكونوا مجتمعين
بل قد يكونون متفرقين في أقطار الأرض. (شرح مسلم للنووي 13/67
) .
شيخ الإسلام اور امام نووی کے نزدیک ” أهل الحديث
” کی تعریف آپ نے ملاحظہ کی ، اب فیصلہ آپ کریں کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث
بهی ان لوگوں میں داخل هیں ؟؟ حاشا وکلا
شيخ الإسلام رحمه الله نے تو قرون ثلاثة ( صحابہ ، تابعین ،
تبع تابعین ) کے سلف کو ” أهل الحديث ” قرار دیا ، جب کہ فرقہ جدید نام نہاد
اهل حدیث کا طرز ونظریہ صحابہ کے بارےآپ کومعلوم هے یعنی ان کے نزدیک ( صحابی کا قول
وفعل وفہم ) حُجت ودلیل نہیں هے ، خلاصہ یہ کہ ” فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث
” کا تعلق ونسبت حقیقی ” أهل الحديث وأصحاب الحديث ” یعنی مُحدثین کرام
سے ذره برابربهی نہیں هے ،اور یہ بهی واضح هوگیا کہ یہ نام ولقب امت میں ایک علمی طبقہ
کے لیئے خاص هے ، جس طرح هرجاهل مجهول کو ” أهلُ التفسير ” أهلُ الفقه
“أهل العلم” أهل القرآن ” کا لقب نہیں دیا جاسکتا ، ایسا هی ”
أهل الحدیث ” کا لقب بهی هرکس وناکس کے لیئے استعمال نہیں هوسکتا ، یہ اوربات
هے ایک فرقہ جدید نے هندوستان میں انگریزی عهد میں اپنے لیئے ” اهل حدیث
” کا نام سرکاری کاغذات میں الاٹ کروایا ، تواس وجہ سے یہ فرقہ جدید اس نام سے
لوگوں میں مشہورهو گیا ، لیکن اهل عقل واصحاب علم خوب جانتے هیں کہ صرف نام رکهنے سے
حقائق نہیں بدلا کرتے
فـــــرقــــه جدید نام نہاد أهـــل حـــديث کے امتیازی صفات ونظريات
1 ۰ تقلید کا نہ صرف انکار بلکہ اس کو شرک
فی الرسالت سے تعبیر کرنا
2 ۰ بیس رکعت تراویح کو بدعت کہنا
3 ۰ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنا
4 ۰ فاتحہ خلف الامام نہ پڑهنے والے کی
نماز کو باطل کہنا
5 ۰ صحابہ کرام کے قول ، فعل ، فہم کو حجت
نہ سمجهنا
6 ۰ اجماع امت کا انکار کرنا
7 ۰ خصوصا امام ابو حنیفہ رحمه الله اور
ان کے متبعین پر لعن طعن کرنا
8 ۰ کرامات اولیاء کا انکار کرنا
9 ۰ علم فقہ کو قرآن وحدیث کے مخالف کہنا
اور برے الفاظ سے یاد کرنا
10 ۰ صحابہ کرام کے اجماع کو حجت نہ سمجهنا
وغیره وغیره

جب کہ حقیقی أهل
الحديث یعنی محدثین کرام میں سے کسی کے بهی یہ نظریات نہیں هیں ، لهذا یہ بات روز روشن
کی طرح واضح هو جاتی هے ، کہ هندوستان میں انگریزی دور میں پیدا شده اس جدید ف
ـــــرقــــه أهـــل حـــديث کا حقیقی أهل الحديث یعنی محدثین
کرام کے ساتھ ذره برابر بهی مناسبت وتعلق نہیں نہیں هے

By Mohsin Iqbal

وسوسه =(إذا صح الحديث فهو مذهبي) صحیح حدیث میرا مذہب ہے

وسوسه = أئمه کی تقليد اس وجہ سے بهی ناجائز هے ، کہ ان ائمہ
نے خود اپنی تقلید سے منع کیا هے ، اورخاص کران أئمه أربعه میں سے هرایک نے ارشاد فرمایا
هے کہ (إذا صح الحديث فهو مذهبي) صحیح حدیث میرا مذہب ہے
جواب = یہ دعوی و وسوسہ بهی بالکل باطل هے ، کہ أئمه مجتهدين
نے مُطلقًا اپنی تقلید سے منع کیا هے ، ان أئمه مجتهدين میں سے کسی ایک سے بهی یہ بات
منقول نہیں هے ، اوراگربالفرض ان سے نہی عن التقليد ثابت بهی هو ، تو یہ نہی وممانعت
مُجتهد کے لیئے هے نہ کہ غیرمُجتهد کے لیئے
یہ سینکڑوں هزاروں کتابیں ائمہ اربعہ اوران کے اصحاب کیوں لکهی
هیں ؟؟
تمام اجتهادی وفروعی مسائل کی جمع وتدوین کیوں کی هے ؟؟
یہ سارا اهتمام اسی لیئے توکیا گیا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ
بآسانی دین پر اورکتاب وسنت پرعمل کرسکیں
أئمه أربعه کے قول ((إذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِي
)) کا صحیح مطلب
إمام نووي رحمہ الله نے اپنی کتاب (المجموع شرح المهذب) کے مُقدمہ
میں فرماتے ہیں کہ (( وهذا الذي قاله الشافعي ليس معناه أن كل واحد رأى حديثا صحيحا
قال هذا مذهب الشافعي وعمل بظاهره وإنما هذا فيمن له رتبة الاجتهاد في المذهب على ما
تقدم من صفته أو قريب منه وشرطه أن يغلب على ظنه أن الشافعي رحمه الله لم يقف على هذا
الحديث أو لم يعلم صحته وهذا إنما يكون بعد مطالعة كتب الشافعي كلها ونحوها من كتب
أصحابه الآخذين عنه وما أشبهها وهذا شرط صعب قل من يتصف به الخ)) . المجموع شرح المهذب،مقدمة
الإمام النووي
یعنی یہ جو امام شافعی رحمہ الله نے کہا هے کہ (إذا صح الحديث
فهو مذهبي
)
اس کا یہ معنی ومطلب نہیں هے کہ هرایک آدمی جب صحیح حدیث دیکهے
تو یہ کہے کہ یہ امام شافعی رحمہ الله کا مذهب هے ، اوراس کے ظاہر پر عمل کرے ، بلکہ
یہ حکم اس شخص کے لیئے هے ، جو مذهب میں اجتهاد کا درجہ رکهتا هو ، اوراس کی شرط یہ
ہے کہ اس کو غالب گمان ہوجائے کہ امام شافعی رحمه الله اس صحیح حدیث پر مطلع نہیں ہوئے
، یا اس حدیث کی صحت ان کو معلوم نہیں تھی ، اوریہ مرتبہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے کہ
جب وه امام شافعی کی تمام کتب اوراسی طرح آپ کے أصحاب اورشاگردوں کی تمام کتابوں کا
(بنظر غائر) مطالعہ کرلے ، اوریہ بہت ہی مشکل شرط ہے ، بہت کم لوگوں میں اس شرط کی
اہلیت وقابلیت ہے
.
فائده = یاد رہے کہ إمام نوَوِي رحمه الله تعالى نے یہ کلام
وتبصره ساتویں صدی ہجری میں فرمایا ہے ، کہ اس زمانہ میں ان اوصاف سے متصف لوگ بہت
کم ہیں ، جو مذهب میں اجتهاد کا درجہ رکهتے هوں ، اور إمام نوَوِي خود کو بهی اس کا
اہل نہیں سمجهتے ، جبکہ إمام نوَوِي رحمہ الله امت مسلمہ کے جلیل القدر امام اور شيخ
الإسلام ہیں ، اور مذهب شافعى کے ستونوں میں سے ایک ہیں ، اور بہت سارے علوم مثلا حديث
شريف اورفقه وتفسير ورجال ولغت وزهد و وَرَع وتصوف وغیره میں آپ کی امامت وجلالت مسلم
ہے ، آپ کی تمام مُؤلَّفات کو اول دن سے شرف قبولیت حاصل ہے ، خصوصا “رياض الصالحين”
اور”الأذكار” اور”الأربعون” اور “شرح صحيح مسلم” وغیره
سے ہر متدین مسلمان واقف ہے ، اور علماء وطلبہ علم اورعام مسلمانوں سب کے لیے آپ کی
کتب مفید ونافع ہیں ، اور إمام نوَوِي رحمہ الله کے بعد شاید ہی کوئی عالم یا طالب
علم ایسا ہوگا ، کہ جس نے آپ کی مؤلَّفات سے استفاده نہ کیا ہو ، لہذا اس مختصر تصریح
سے ان لوگوں کی جہالت وحماقت کی واضح ہوگئ ، جو یہ مقولہ ((إذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ
مَذْهَبِي )) استعمال کرکے عوام کو بہکاتے ہیں
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام شافعی وغیره ائمہ کا یہ قول عامة الناس
کے لیئے اور ہر کس وناکس کے لیے نہیں ہے ، بلکہ اس قول کے مخاطب مُجتهد في المذهب یا
مُجتهد مطلق ہیں ، اسی طرح شوافع میں سے حافظ ابن الصلاح اور إمام تقي الدین السبكي
نے اور مالكيه میں سے إمام شهاب الدين القرافي اورأبو بكر المالكي نے بهی یہی تصریح
کی ہے ، اور حنفيه میں سے إمام بن الشحنه الحلبي نے اپنی ( شرح الهداية ) کے شروع میں
یہی بیان کیا ، اور آپ سے پهر دیگر حنفی علماء نے بهی یہی نقل کیا ، جیسا کہ امام ابن
عابدين شامي نے اپنی حاشيه یہی تصریح نقل فرمائی ہے ، اور إمام سبكي رحمه الله نے اس
مقولہ کی تشریح میں مستقل رسالہ (( “معنى قول الامام المطلبي إذا صح الحديث فهو
مذهبي” )) کے نام تحریر کیا . من شاء الوقوف علی المزید فلیراجع‏ الیها

By Mohsin Iqbal

وسوسه = مقلدین همیشہ اپنے امام کی بات وقول پرعمل کرتے هیں ، اگرچہ امام کا قول الله ورسول کے قول وحکم کے مخالف کیوں نہ هو

وسوسه = مقلدین همیشہ اپنے امام کی بات وقول پرعمل کرتے هیں
، اگرچہ امام کا قول الله ورسول کے قول وحکم کے مخالف کیوں نہ هو
جواب = یہ وسوسہ بالکل باطل وفاسد هے ، کہ مقلدین امام کے قول
کو الله ورسول کے حکم پرترجیح دیتے هیں ، اور حقیقت حال یہ هے کہ امام مجتهد کے قول
کو الله ورسول کے حکم کے مخالف ظاهرکرنا عموما عوام الناس کوگمراه کرنے اورائمہ مجتهدین
سے بغض وتعصب کی بنا پرکیا جاتا هے ، کیونکہ عموما یہ بات کہنے والے لوگ کسی جاهل کی
تقلید میں کہتے هیں ، باقی ان کے بقول مثلا امام کا فلاں قول قرآن وحدیث کے خلاف هے
، اب اس کہنے والے کونہ توامام کے اس قول کا کچهہ علم هوتا هے ، اور نہ آیت وحدیث کی
کچھ خبرهوتی هے ، بس اندهی تقلید میں اس طرح کے وساوس اور بے سرو پا باتیں یاد کرکے
پهیلاتے رهتے هیں ، اور اگر بالفرض کسی جگہ کسی امام کا قول بظاهر کسی حدیث کے خلاف
بهی نظرآتا هو ، لیکن امام کے پاس اپنے قول پرکسی دوسری حدیث وآیت وغیره سے دلیل موجود
هوتی هے ، لیکن جاهل شخص بوجہ اپنی جہالت کے اس کو نہیں جانتا ، لهذا وه ان ائمہ کرام
لعن طعن کرنا شروع کردیتا هے ، گذشتہ سطور میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تصریح گذر
چکی کہ ائمہ مسلمین میں سے کسی نے بهی صحیح حدیث کی مخالفت نہیں کی

By Mohsin Iqbal

وسوسه = همارے اوپر شریعت نے کتاب وسنت کی اتباع کو لازم کیا هے ، نہ کہ ائمہ اربعہ کی اتباع کو ، لہذا ائمہ اربعہ کی پیروی کوچهوڑنا ضروری هے

وسوسه = همارے اوپر شریعت نے کتاب وسنت کی اتباع کو لازم کیا
هے ، نہ کہ ائمہ اربعہ کی اتباع کو ، لہذا ائمہ اربعہ کی پیروی کوچهوڑنا ضروری هے
جواب = پہلی بات تو یہ ہے کہ دلائل شرعیہ صرف كتاب وسنت هی نہیں
، بلکہ اهل سنت کے نزدیک (اجماع ، وقياس ، وقول صحابي ، وعرف ، واستحسان ، و مصالح
مرسلة ) وغير ذلك ، بهی دلائل شرعیہ میں داخل هیں ، اور صرف كتاب وسنت کوهی دلیل کہنا
، اوردیگردلائل کوتسلیم نہ کرنا بہت بڑی خطا هے
دوسری بات یقینا همارے اوپرشریعت نے کتاب وسنت کی اتباع کو لازم
کیا هے ، لیکن کتاب وسنت کوئی بولتے انسان نہیں ہیں ، کہ ہم ان کو مخاطب کرکے مسائل
پوچهیں ، مثلا قرآن اٹها کر یہ کہیں کہ اے قرآن مجهے فلاں آیت کی تفسیر بتادے ، اے
حدیث مجهے فلاں حدیث کی تشریح بتا دے ، اے قرآن وسنت فلاں مسئلہ میں میری راہنمائی
کرو ، بلکہ کتاب وسنت کی اتباع وپیروی کا طریقہ یہی ہے کہ کتاب وسنت کے ماہرین مستند
علماء سے پوچھ کر عمل کیا جائے گا ، اور ائمہ اربعہ کا کام تو صرف یہی ہے کہ وه کتاب
وسنت کی صحیح ترجمانی کرکے ہماری راہنمائی فرماتے ہیں ، لہذا ہم درحقیقت ائمہ اربعہ
کی نہیں بلکہ کتاب وسنت کی ہی اتباع کرتے ہیں ، اورجہاں تک ائمہ مجتهدين کے أقوال کا
تعلق هے ، تو وه كتاب وسنت کے مخالف ومقابل نہیں هیں ، بلکہ ان کے أقوال کی حیثیت كتاب
وسنت کے لیئے بمنزلہ تفسير وبيان کے هے ، لہذا أقوال أئمه کولینا آيات واحاديث کے چهوڑنے
مترادف هرگزنہیں هے ، بلکہ بعینہ كتاب وسنت کا هی تمَسُّك هے ، کیونکہ آيات واحاديث
انهی ائمة کرام کے واسطہ سے هم تک پہنچی هیں ، اور یہ ائمه کرام اوراسلاف عظام سب سے
زیاده كتاب وسنت کا علم رکهتے تهے ، صحیح وسقیم حسن وضعیف مرفوع ومرسل ومتواتر ومشہوروغیره
احادیث ، متقدم ومتأخر کی تاریخ ، ناسخ ومنسوخ ، أسباب ولغات ، ضبط وتحرير وغیره غرض
یہ کہ تمام علوم میں اعلی درجہ کا کمال رکهتے تهے ، قرآن واحاديث کے علوم واسرار ومعارف
کوسب سے زیاده جاننے والے تهے ، لہذا قرآن واحاديث سے ان ائمہ نے فوائد وأحكام ومسائل
مستنبط کیئے ، اور لوگوں کے سامنے اس کوبیان کیئے ، اوران کے گراں قدر خدمات اور قربانیوں
نے هی قرآن واحاديث اوردین پرعمل کوآسان بنایا ، اور قرآن واحاديث میں وارد شده مشکل
ومخفی مسائل کوحل کروایا ، اورالله تعالی نے ان ائمہ کرام کے ذریعہ امت میں خیرکثیرکوپهیلایا

By Mohsin Iqbal

وسوسه = یہود ونصاری اپنے مولویوں اور درویشوں کا کہا مانتے تهے اس لیئے الله نے ان کومشرک فرمایا ، اور مقلدین بهی ان کی طرح اپنے اماموں کا کہا مانتے هیں

وسوسه = یہود ونصاری اپنے مولویوں اور درویشوں کا کہا مانتے
تهے اس لیئے الله نے ان کومشرک فرمایا ، اور مقلدین بهی ان کی طرح اپنے اماموں کا کہا
مانتے هیں
جواب = یہ وسوسہ بہت کثرت کے ساتھ پهیلایا گیا ، اور بعض جہلاء
نے یہود ونصاری کی مذمت میں وارد شده آیات کوائمہ مجتہدین کے مقلدین کے حق میں استعمال
کیا ، جوکہ سراسر جهوٹ اوردهوکہ هے ، کیونکہ یہود ونصاری کوجواحکامات شریعت دیئے گئے
اورجوکتب الله تعالی نے ان کی هدایت کے واسطے نازل کیں ، توان احکامات شریعت وکتب سماویہ
میں علماء یہود ونصاری نے کهل کرتغیروتبدل کیا ، اورتحریف جیسے جرم عظیم کے مرتکب هوئے
، اوراس جرم کا اصل سبب موجب تن آسانی اور راحت پسندی اورعیش وعشرت تها ، جس حکم میں
دشواری ودقت محسوس کرتے اس کوتبدیل کردیتے ، اور مقدس آسمانی کتب میں تحریف کرکے اپنی
خواہش ومرضی کے موافق مضمون درج کردیتے تهے ، اس لیئے قرآن مجید نے ان کے قبیح حرکت
کوان الفاظ میں ذکرکیا
( يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ
بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ) وه ( اهل کتاب ) اپنے
هاتهوں سے کتاب ( میں ) لکھ ڈالتے هیں پهر کہتے هیں یہ الله کی طرف سے هے
.
قرآن مجید میں جابجا ان کی اس قبیح حرکت اورعظیم جرم کوبیان
کیا گیا ، اورجن لوگوں نے ان کی پیروی کی اوران علماء سُوء کے کہنے پرچلے جوغلط ومُحرَّف
احکام کی تعلیم دیتے تهے توایسے پیروکاروں کومشرک کہا گیا
.
لیکن ائمہ اربعہ کے مقلدین کو یہود ونصاری پرقیاس کرکے مشرک
بتلانا قطعا غلط هے ، اورایک جاهل واحمق دین سے بے خبرشخص هی یہ بات کرسکتا هے ، اس
لیئے فقهاء امت محمدیہ وائمہ اسلام نے ( معاذالله ) وه کام نہیں کیئے جو یہود ونصاری
کے احبار ورُهبان کرتے تهے
کیا فقهاء وائمہ اسلام نے بهی یہود ونصاری کے علماء کی طرح دین
میں تحریف کی ؟؟؟
کیا فقهاء وائمہ اسلام بهی اپنی طرف سے احکام گهڑکرلوگوں کوتعلیم
کرتے رهے ؟؟؟
کیا پورے تاریخ اسلام میں کسی بهی عالم وامام نے یہ کہا هے ،
کہ فقهاء وائمہ اسلام بهی یہود ونصاری کے علماء کی طرح تحریف وتبدیل کے جرم کا ارتکاب
کرتے رهے ، لہذا ان کے مُقلدین وپیروکار مشرک هیں ؟؟؟
فقهاء وائمہ اسلام نے کیا کام کیا
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله اس کا جواب اس طرح دیتے هیں
مسلمان جن ائمہ کی اتباع کرتے ہیں ، وه ائمہ لوگوں کے درمیان
اور رسول عليہ الصلاة والسلام کے درمیان وسائل اور ذرائع اور نمائنده کی طرح ہیں ،
وه ائمہ وفقهاء کرام تو عام مسلمانوں کو اپنی اجتهاد وطاقت کے مطابق حضور صلی الله
علیہ وسلم کی (احادیث کی ) مراد بتلاتے هیں .وقال شيخ الإسلام رحمه الله فأئمة المسلمين
الذين اتبعوهم وسائل وطرق وأدلة بين الناس وبين الرسول يبلغونهم ما قاله ويفهمونهم
مراده بحسب اجتهادهم واستطاعتهم .الفتاوى: 20/224
.
اورامت مسلمہ کے ائمہ مجتهدین کے بارے صحیح حدیث میں وارد هوا
هے ، کہ
اگروه اجتهاد کرے اوراجتهاد درست هو تو اس کے لیئے دواجرهیں
، اوراگراجتهاد میں خطا وغلطی کرلے پهر بهی اس کے لیئے ایک اجرهے
عن عمرو بن العاص أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول
اذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ
فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ . متفق عليه
امام بخاری رحمہ الله نے اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ( باب
أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ ) . ابن حجر رحمہ الله فرماتے هیں کہ امام بخاری
رحمہ الله اس بات کی طرف اشاره کر رهے هیں کہ جس مجتهد کا حکم یا فتوی بوجہ خطاء کے
رد کردیا جائے ، تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وه مُجتهد گناهگار هوگا ، بلکہ جب اس
نے اپنی طاقت وکوشش اجتهاد میں صرف کی تواس کواجردیا جائے گا ، اوراگروه مُصیب هوا
یعنی اس کا اجتہاد درست ثابت ہوا تو اس کو دوگنا اجر ملے گا ، لیکن اگربغیرعلم فتوی
وحکم دیا توپهر گناهگارهوگا الخ. فتح الباري شرح صحيح البخاري،كتاب الاعتصام بالكتاب
والسنة
حاصل یہ کہ یہود ونصاری کے علماء اور فقهاء امت محمدیہ کے کام
اور عمل میں فرق بالکل واضح هے ، یہود ونصاری کے علماء دین میں تحریف وتبدیل کےمرتکب
هوئے ، اور فقهاء امت محمدیہ نےمُراد نبی کو امت کے سامنے واضح کیا ، اور انتہائی اخلاص
وکامل امانت ودیانت کے ساتھ صحیح دین کو لوگوں تک پہنچایا ، یہ حضرات توامت کے عظیم
مُحسن هیں ، ان کے مُتبعین ومُقلدین کو مشرک کہنے والے جاهل واحمق لوگ هیں ، جوکہ عندالله
اس جهوٹ پرماخوذ هوں گے ، کیونکہ خود الله تعالی ان کی اتباع وپیروی کا حکم دیتا هے
علماء وفقهاء کی اطاعت
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا
الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ . سورة النساء
أولي الأمر ” کی تفسیر میں بعض مفسرین نے ” أمراء
” لکها هے ، لیکن اکثرمفسرین نے اس سے ” علماء وفقهاء ” مراد لیا هے
، اور اسی سےتقلید واتباع ائمہ اربعہ کا وجوب بهی ثابت هوگیا
.
ابن عباس اورجابر اور حسن بصری اورضحاك اورمجاهد رضي الله عنهم
کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد علماء وفقهاء ہیں ، جو لوگوں کو ان کا دین سکهاتے ہیں
. قال ابن عباس وجابر رضي الله عنهم هم الفقهاء والعلماء الذين يعلمون الناس معالم
دينهم وهو قول الحسن والضحاك ومجاهد ودليله قوله تعالى وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ
وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ
. تفسير البغوي شيخ الإسلام ابن
تيميه رحمه الله بهی فرماتے هیں (وأولوا الأمر) سے مراد علماء وامراء هیں ، جب وه الله
ورسول کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں ، تو ان کی اطاعت واجب ہے . قال شيخ الإسلام ابن
تيمية رحمه الله وأولوا الأمر هم العلماء والأمراء فإذا أمروا بما أمر الله به ورسوله
وجبت طاعتهم . “الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح” (2/238):اور ابن القیم
رحمه الله فرماتے هیں کہ أمراء کی اطاعت بهی اس وقت کی جائے گی کہ جب وه علم کے مطابق
فیصلہ کریں ، کیونکہ اطاعت معروف کاموں میں ہوتی ہے ، جس طرح علماء کی اطاعت رسول کی
اطاعت کے تابع ہے ، اسی طرح أمراء کی اطاعت علماء کی اطاعت کے تابع هے . وقال ابن القيم
رحمه الله أن الأمراء إنما يطاعون إذا أمروا بمقتضى العلم فطاعتهم تبع لطاعة العلماء
فإن الطاعة إنما تكون في المعروف وما أوجبه العلم فكما أن طاعة العلماء تبع لطاعة الرسول
فطاعة الأمراء تبع لطاعة العلماء. نقلا من کتاب معاملة العلماء

By Mohsin Iqbal

وسوسه = قرآن وحدیث پرعمل کرنے کے لیئے کسی امام کی تقليد كى کوئی ضرورت نہیں هے بلکہ ازخود هرشخص مطالعہ وتحقیق کرکے قرآن وحدیث پرعمل کرے

وسوسه = قرآن وحدیث پرعمل کرنے کے لیئے کسی امام کی تقليد كى
کوئی ضرورت نہیں هے بلکہ ازخود هرشخص مطالعہ وتحقیق کرکے قرآن وحدیث پرعمل کرے
جواب = یہ باطل وسوسہ عوام الناس کومختلف انداز سے سمجهایا جاتا
هے ، اور مقصد اس کا یہ هوتا هے کہ عوام کو دین میں آزاد بنا دیا جائے ، اور سلف صالحین
وعلماء حق کی اتباع سے نکال کر درپرده چند جاهل لوگوں کی اتباع پران کو مجبور کیا جائے
، یہ وسوسہ درحقیقت بڑا خطرناک وگمراه کن هے
کیا صرف مطالعہ کے ذریعہ علوم دینیہ کوحاصل کیا جاسکتا هے ؟؟؟
کون نہیں جانتا کہ هرعلم وفن میں کمال ومہارت حاصل کرنے کے لیئے
اس علم وفن کے ماهر ومستند لوگوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا هے ، اور اس علم وفن کے تمام
شروط ولوازم اصول وقواعد کی پابندی لازمی هوتی هے ، هر علم وفن کے اندر کچھ خاص محاورات
واصطلاحات هوتے هیں ، اور اتارچڑهاو کا ایک خاص انداز هوتا هے ، جس کا سمجهنا بغیرکسی
ماهراستاذ کے ممکن نہیں هے ، اور تو اور دنیوی فنون کو دیکھ لیجیئے کہ بزور مطالعہ
کسی بهی فن میں مہارت ناقابل قبول سمجهی جاتی هے ، جب دنیوی فنون کا یہ حال هے جوانسانوں
کی اپنی ایجاد کرده هیں ، تو الله ورسول کے کلام کو پڑهنے وسمجهنے کے لیئے صرف ذاتی
مطالعہ کیونکر کافی هوگا ، جب کہ الله ورسول کے بیان کرده احکامات اور کلام وحی سے
متعلق هے ، جس میں انسانی عقل وسمجھ کو کوئی دخل نہیں هے
الله تعالی کی سنت ماضیہ ، بغیراستاذ ومُعلم صرف کتابوں کے ذریعہ
قرآن وحدیث کا مقصد ومطلب وحقیقی مراد پالینا ممکن نہیں هے
ابتداء سے هی الله تعالی نے انبیاء ورسل کا سلسلہ مبارکہ جاری
فرمایا ، اور یہ سلسلہ مبارکہ جناب محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم كى بعثت مباركه
پرهمیشہ همیشہ کے لیئے ختم هوچکا هے ، اگر صرف انسانی مطالعہ هی کافی هوتا ، تو الله
تعالی بجائے نبی ورسول بهیجنے کے صرف کتابیں نازل کرتا ، اور انسان اس کی مد د سے ازخود
الله تعالی کی معرفت اور الله تعالی کے کلام کی مراد ومقصود کی فہم حاصل کرتا ، لیکن
تاریخ اور کتاب وسنت کی صریح نصوص سے یہ بات ثابت هوچکی هے کہ الله تعالی نے کوئی ایسی
کتاب نازل نہیں کی جس کے ساتھ مُعلم یعنی نبی کو نہ بهیجا هو ” تورات ” کے
ساتھ حضرت موسی ” انجیل ” کے ساتھ حضرت عیسی ” زبور ” کے ساتھ
حضرت داود اور اسی طرح ” صُحُف ” حضرات ابراهیم کے ذریعہ لوگوں کو پہنچے
. صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین
اورقرآن مجید جوسید الکتب هے ، جناب خاتم الانبیاء محمد رسول
الله صلى الله عليه وسلم پرنازل کی گئ ، کیا ان کتب الهیہ کے تصور کوبغیر انبیاء ورسل
کے کوئی کامل ومکمل تصور کہا جاسکتا هے ؟ یقینا کوئی بهی سنجیده انسان اس بات کا جواب
اثبات میں نہیں دے سکتا ، اگر صرف کتابوں کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن هوتا
اور خود هی کتاب پڑھ کر الله تعالی کی مُراد ومقصود حاصل کرنا ممکن هوتا تو ان انبیاء
صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین کی بعثت کیوں ضروری تهی ؟ قرآن مجید خاتم الکتب هے
، جو خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے واسطہ سے هم تک پہنچا ، اگر
صرف کتاب کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن هوتا ، توخاتم الانبیاء محمد رسول الله
صلى الله عليه وسلم کے فرائض منصبی میں سے ایک اهم فرض تلاوت آیات اور تعلیم کتاب کیوں
لازم کیا گیا ؟ آپ كى بعثت مبارکہ کیوں ضروری تهی ، اور اس قدر اذیت وتکلیف ومشقت کی
تاریخ کیوں مرتب کی گئ ؟ کیا اهل مکہ عربی زبان نہیں سمجهتے تهے ؟ قرآن کسی ذریعہ سے
نازل کردیا جاتا ، اور عوام وخواص اس کو پڑھ کر ازخود سمجهنے کی کوشش کرتے ، اسی طرح
حضرت جبریل علیہ السلام کو درمیان میں کیوں واسطہ بنایا گیا ؟ خود براه راست خاتم الانبیاء
محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم تک قرآن مجید پہنچا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا
گیا ، جس میں واضح تعلیم هے کہ بغیراستاذ ومُعلم صرف کتابوں کے ذریعہ قرآن وحدیث کا
مقصد ومطلب وحقیقی مراد پالینا ممکن نہیں هے
دین کوسمجهنے کے لیئے ” کتابُ الله اور رجالُ الله
” لازم وملزوم ہیں
اسی ” سُنة الله ” کے تناظر میں یعنی کتاب کے ساتھ
مُعلم کا هونا ضروری هے ، علماء حق علماء دیوبند اور جميع أهل سنت كا یہی مسلک هے کہ
دین صرف کتابی حروف ونقوش کا نام نہیں هے ، اور نہ دین کو محض کتابوں سے سمجها جاسکتا
هے ، الله تعالی نے همیشہ کتاب کے ساتھ رسول کو مُعلم بنا کر اس لیئے بهیجا تاکہ وه
اپنے قول وفعل وعمل سے کتاب کی تفسیر وتشریح کرے ، چنانچہ ایسی مثالیں توملتی هیں کہ
دنیا میں رسول بهیجے گئے مگرکتاب نہیں آئی ، لیکن ایسی مثال ایک بهی نہیں هے کہ صرف
کتاب بهیج دی گئ هو ، اور اس کے ساتھ رسول مُعلم بن کر نہ آیا هو ، الله تعالی کی یہ
سنت بتلاتی هے کہ دین کو سمجهنے سمجهانے اور پهیلانے پہنچانے کا راستہ وطریقہ صرف کتاب
نہیں هے ، بلکہ اس کے ساتھ وه اشخاص وافراد بهی هیں ، جو کتاب کا عملی پیکربن کراس
کتاب کی تشریح وتفسیر کرتے هیں ، لہذا دین کوسمجهنے کے لیئے ” کتابُ الله اور
رجالُ الله ” لازم وملزوم کی حیثیت رکهتے هیں ، ان میں سے ایک کودوسرے سے جدا
نہیں کیا جاسکتا ، لہذا ” کتاب الله ” کو جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله
صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح کی روشنی میں اور سنت وحدیث رسول الله صلى الله
عليه وسلم کو صحابہ کرام وتابعین وتبع تابعین وسلف صالحین کی تفسیر وتشریح وتحقیق کی
روشنی میں هی ٹهیک ٹهیک سمجها جاسکتا هے ، اس کے بغیر دین کی اور قرآن وحدیث کی تعبیروتشریح
کی هرکوشش گمراهی کی طرف هی جاتی هے ،
تمام صحابہ کرام اهل لسان تهے ، عربی ان کی مادری زبان تهی ،
مگر مقاصد قرآن سمجهنے کے لیئے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم
کی تفسیر وتشریح وتعلیم کے محتاج تهے ، اورآپ کی طرف هی رجوع کرتے تهے ، اپنی سمجھ
وفہم کوانهوں نے کافی نہیں سمجها ، اورصحابہ کرام اهل لسان هونے کے ساتھ ساتھ فصاحت
وبلاغت اورتمام دیگرصفات میں اعلی مقام رکهتے تهے ، لیکن اس کے باوجود قرآن سمجهنے
کے لیئے خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف هی رجوع کرتے تهے
،
تومعلوم هوا کہ صرف عربی لغت پڑھ لینا بهی کافی نہیں ، اور نہ
صرف مطالعہ کافی هے ، اورتاریخ وتجربہ شاهد هے کہ جس شخص نے بهی اساتذه وماهرین کی
مجلس میں بیٹھ کر باقاعده تمام اصول وقواعد کی روشنی میں علم دین حاصل نہیں کیا ، بلکہ
قوت مطالعہ کے ذریعے کتاب وسنت سمجهنے کی کوشش کی توایسا شخص گمراهی سے نہیں بچا ،
اسی طرح جس شخص نے اپنے ناقص عقل وفہم پراعتماد کیا ، اور کسی ماهر مستند استاذ ومُعلم
سے باقاعده علم حاصل نہیں کیا ، توایسا شخص خود بهی گمراه هوا اور دیگر لوگوں کو بهی
گمراه کیا ،
اورآج کے اس پرفتن دور میں لوگ اردو کے ایک دو رسالے پڑهہ کر
اور قرآن وحدیث کا اردوترجمہ پڑھ کر بڑے فخرکرتے هیں کہ اب هم کو کسی امام ومعلم کی
کوئ ضرورت نہیں هے ، اب هم بڑے کامل هوچکے هیں ، ایسے جاهل لوگ اپنے ناقص عقل وفہم
کی مدح سرائی کرتے هوئے تهکتے نہیں هیں ،
اور آج کل جاهل عوام میں یہ وباء فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث
کی جانب سے پهیلائ جارهی هے ، هرجاهل ومجهول کو مُجتهد کا درجہ دیا هوا هے ، اور فی
زمانہ وسائل اعلام ( میڈیا کے ذرائع ) کی کثرت کی بنا پر اس فرقہ جدید نام نہاد اهل
حدیث میں شامل هرکس وناکس انتہائی دلیری کے ساتھ اپنی جہالت وحماقت وضلالت کو هرممکن
ذریعہ سے پهیلا رها هے ، اسی لیئے احادیث صحیحہ میں ایسے شخص کے لیئے جہنم کی سخت وعید
وارد هوئی هے ، کہ جو شخص اپنی خیال ورائ سے یا بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کرتا
هے
قرآن میں اپنی رائے وخیال سے بات کرنے اور بغير علم قرآن کی
تفسیر والوں کے لیے سخت ترین وعید
1 = عن ابن عباس رضي الله عنهما
قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار
2 = عن ابن عباس رضي الله تعالى
عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من
النار
3 = عن جندب بن عبد الله البجلي
رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من قال في القرآن برأيه فأصاب فقد
أخطأ
4 = عن ابن عباس قال من تكلم
في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار
تفسير البغوي الجزء الأول
5 = وعن ابن عباس أن رسول الله
صلى الله عليه وسلم قال من قال في القرآن برأيه وفي رواية من غير علم فليتبوأ مقعده
من النار . رواه الترمذي في كتاب تفسير القرآن وحسنه
خلاصہ ان روایات کا یہ هے کہ جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے وخیال
سے بات کی یا بغیرعلم کے کوئی بات کی تو وه شخص اپنا ٹهکانہ جہنم بنا لے ، یا قرآن
میں اپنی رائے سے کوئی بات کی اوربات صحیح بهی نکلے تب بهی اس نے خطا اور غلطی کی
.
یقینا اتنی سخت وعید سننے کے بعد ایک مومن آدمی قرآن میں اپنی
رائے وخیال سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا ، اوران احادیث کی روشنی میں فرقہ جدید
اهل حدیث کی حالت کوملاحظہ کریں ، کہ هرجاهل مجهول آدمی کو قرآن میں رائے زنی کا حق
دیا هوا هے ، جب کہ اس فرقہ شاذه میں شامل اکثر لوگوں کی حالت یہ هے کہ قرآن کے علوم
ومعارف پر دسترس تو کجا قرآن کی صحیح تلاوت بهی نہیں کرسکتے ، همارے اسی زمانہ کے فتنوں
کے سد باب اور روک تهام کے لیئے هی حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما دیا تها
شرعي علم مستند وحقیقی علماء سے سیکهنا ضروری ہے
عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ
وَالْفِقْهُ بِالتَّفَقُّهِ وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
وَإِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ . أخرجه الطبراني في المعجم
الكبير وفي مسند الشاميين والخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه . وقال الهيثمي في مجمع
الزوائد رواه الطبراني في الكبير وفيه رجل لم يسم وعتبة بن أبي حكيم وثقه أبو حاتم
وأبو زرعة وابن حبان وضعفه جماعة
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے هیں ( وإنما العلم
بالتعلم ) مرفوع حدیث هے ، جس کو ابن أبي عاصم اور طبراني نے حضرت معاویہ رضي الله
عنه سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ( يا أيها الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقه
بالتفقه ومن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ) . اور اس کی سند حسن ہے
.
وقال في فتح الباري (1/161) قوله “وأنما العلم بالتعلم”
هو حديث مرفوع أيضا أورده بن أبي عاصم والطبراني من حديث معاوية أيضا بلفظ يا أيها
الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقه بالتفقه ومن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين
إسناده حسن إلا أن فيه مبهما اعتضد بمجيئه من وجه آخر وروى البزار نحوه من حديث ابن
مسعود موقوفا ورواه أبو نعيم الأصبهاني مرفوعا وفي الباب عن أبي الدرداء وغيره فلا
يغتر بقول من جعله من كلام البخاري .اه
ـ
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے هیں کہ
والمعنى ليس العلم المعتبر إلا الماخوذ من الأنبياء وورثتهم
على سبيل التعلم
( فتح الباري ج 1 ص 148 )
یعنی معنی اس حدیث (يا أيها الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم
الخ ) کا یہ هے کہ معتبر ومستند علم وهی هے ، جو انبیاء اور ان کے ورثاء یعنی علماء
سے بطریق تعلیم وتعلم حاصل کیا جائے
.
یہاں سے یہ مسئلہ بالکل واضح هوگیا ، کہ جو لوگ اردو کے چند
رسائل پڑھ کر یہ سمجهتے هیں کہ اب هم مجتهد وامام بن چکے هیں ، اب همیں کسی امام کی
تقلید کی کوئی ضرورت نہیں هے ، اب هم نے خود هی قرآن وحدیث کو سمجهنا هے، ایسے لوگ
درحقیقت بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا هیں ، اورایسے لوگوں کے ساتھ شیطان اس طرح کهیلتا
هے ، جس طرح بچے بال کے ساتھ کهیلتےهیں ،
لہذا لائق اعتماد اورقابل عمل وهی علم هے ، جو انبیاء علیهم
السلام سے بطور اسناد حاصل کیا گیا هو ، یہی وجہ هے اهل حق کے یہاں مدارس ومکاتب میں
آج تک یہی مبارک طریقہ رائج هے ، اور عہد نبوی سے لے کرآج تک منزل بہ منزل اس کا باضابطہ
سلسلہ چلا آرها هے ، اور اهل حق کے یہاں علم حدیث کی تعلیم کے لیئے ” اجازت
” کی ضرورت لازم هوتی هے ، ایسا نہیں هے کہ هرشخص جاهل ومجهول اپنے آپ کو مُحدث
، مُفسر ، فقیہ وغیره القابات سے یاد کرے ، اور بغیرپڑهے لکهے اجتهاد وامامت کا دعوی
کرے ، تاریخ میں ایسے افراد کی کئ مثالیں موجود هیں ، جنهوں نے اپنے عقل و فہم اور
قوت مطالعہ پراعتماد کرکے قرآن وحدیث کو سمجهنے کی کوشش کی تو خود بهی گمراه هوئے ،
اور اپنے ساتھ ایک خلق کثیر کوگمراه کیا ، اور اس باب میں ان لوگوں کےسینکڑوں واقعات
هیں ، جنهوں نے بغیراستاذ ومُعلم فقط ترجمہ یا ظاهری الفاظ کوپڑھ کر راهنمائی حاصل
کرنے کی کوشش کی تو وه صحیح مفہوم کو نہ پاسکے ، بلکہ صحیح مفہوم ومراد کواسی وقت پہنچے
جب کسی اهل علم کی رجوع کیا
کسی بهی علم وفن کے حصول کے دو طریقے هیں
حاصل کلام یہ هے کہ گذشتہ تفصیل سے یہ بات خوب واضح هوگئ ، اور
یہ حقیقت بالکل عیاں هوگئ ، کہ کسی بهی علم وفن کے حصول کے دو طریقے هیں
1 = مطالعہ کے ذریعے بذات خود
چند اردو یا عربی کتب ورسائل پڑھ کر
2 = دوسرا طریقہ یہ هے کہ کسی
بهی باکمال وماهراستاذ ومُعلم کی مجلس میں باقاعده حاضر هوکر بالمشافه تمام شروط وآداب
کی رعایت کرتے هوئے سبقا سبقا اس علم کو پڑها جائے
یقینا ان دونوں طریقوں میں پہلا طریقہ بالکل غلط اور گمراه کن
هے
یقینی طور پرتحصیل علم کا مفید اور کامیاب اورقابل اعتماد طریقہ
وه دوسرا طریقہ هے ، اسی طریقہ کی طرف حضورصلى الله عليه وسلم نے هماری راهنمائی فرمائی
هے ، تاریخ اورسلف صالحین کا عمل شاهد هے ، کہ کسی بهی زمانہ اس کا خلاف نہیں کیا گیا
، لہذا بطون کتب سے کوئی بهی قرآن وحدیث کو نہیں سمجھ سکتا ، صحيح البخاري میں حضرت
عمر رضی الله عنہ کا قول هے
(وقال عمر تفقهوا قبل أن
تسودوا ، باب الاغتباط في العلم والحكمة ) علم حاصل کرو فقہ حاصل کرو سردار وقائد بنائے
جانے سے پہلے . امام أبو عبيد نے اپنی کتاب (غريب الحديث ) میں فرمایا کہ معنی اس قول
کا یہ هے کہ بچپن میں علم اورفقہ حاصل کرو قَبل اس کے کہ تم سردار ورئیس بن جاو تو
پهرتم اپنے سے کم مرتبہ سےعلم حاصل کرنے میں عارمحسوس کروتواس طرح تم جاهل ره جاو گے
.
اس کے بعد امام بخاری رحمہ الله نے فرمایا
وقد تعلم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بعد كبرسنهم
یعنی صحابہ کرام نے بڑی بڑی عمروں میں علم حاصل کیا
الله تعالی عوام وخواص اهل اسلام کو صحیح سمجھ دے اورکتاب وسنت
کو اس کے اهل لوگوں سے پڑهنے سمجهنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق دے

By Mohsin Iqbal

وسوسه = دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید شرک وبدعت وجهالت هے

وسوسه = دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید شرک وبدعت وجهالت هے ،
لهذا اس تقلیدی روش کو چهوڑ کرهی کامیابی وفلاح ملے گی ، اوراس کی ایک هی صورت هےکہ
” جماعت اهل حدیث ” میں شامل هوجاو جن کے صرف اور صرف دو هی اصول هیں قرآن
اورحدیث
جواب = أئمه أربعه کی تقلید کے منکر درحقیقت فی زمانہ وه لوگ
هیں ، جوامام ابوحنیفہ اور مذهب احناف سے عداوت ومخالفت کی وجہ سے اور دین میں آزادی
اور بے راه روی کوفروغ دینے کے جذبہ سے مختلف وساوس استعمال کرتے هیں ، جن میں سے چند
کا تذکره گذشتہ سطور میں هوچکا هے ، اصل میں آج کل فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل نام
نہاد شیوخ کا کوئی اصول وموقف نہیں هے ، بلکہ ظاهری طورپر تقلید ائمہ کوشرک وبدعت وغیره
کہ کرمحض عوام الناس کو اتباع سلف سے دورکرنا اور متنفروباغی کرکے اپنی تقلید ان سے
کروانا یہ ان کا اصل مقصد هے ، عوام الناس علم وفہم سے محرومی کی وجہ سے ان کے اس چکروفریب
کونہیں سمجهتے ، ورنہ اگرتهوڑا سا غور وخوض کیا جائے توان کا جهوٹ وفریب بالکل عیاں
هوجائے ،
مثال کے طورپرایک عام آدمی کوکہتے هیں کہ آپ امام ابوحنیفہ کے
مقلد هیں ، اوردین میں توتقلید ناجائز هے ، لہذا آپ کوتقلید سے توبہ کرنی چائیے ، اورقرآن
وسنت کواپنانا چائیے ، اب وه عامی شخص جب یہ وسوسہ قبول کرتا هے ، تو پهراس کویہی وساوس
پڑهائے جاتے هیں ، اور ساتھ ساتھ اس کے ذهن میں یہ بات ڈال دیتے هیں کہ اب دین پرعمل
کرنے اور قرآن وسنت سیکهنے کے لیئے فلاں شیخ کی کتاب پڑهو ، فلاں شیخ کا رسالہ پڑهو
، فلاں شیخ کے بیانات سنو ، اب اس آدمی کوائمہ مجتهدین کی تقلید سے نکال کر چند جاهل
لوگوں کی تقلید کروائی جارهی هے ، لیکن اس آدمی کو بوجہ جہل کے یہ سمجھ نہیں آرها ،
اور تقریبا تمام وه لوگ جو اپنے آپ کو” غیرمُقلد یا اهل حدیث ” کے نام سے
پکارتے هیں سب کا یہی حال هے ، اور جو لوگ بظاهر تقلید کے مُنکر کہلاتے هیں اپنے آپ
کو” غیرمُقلد ” کہتے هیں ، حقیقت میں یہ لوگ دنیامیں سب بڑے اندهے مُقلد
هیں ، اوراس فرقہ جدید میں شامل عوام کوجہالت وجهوٹ ودهوکہ کی تقلید کروائی جاتی هے
، اگرچہ کثرت جہل وقلت فہم کی وجہ سے وه یہ نعره لگاتے هیں کہ تقلید جہالت وبدعت کا
نام هے
ائمہ اربعہ کی تقلید ناجائز اور مُحدثین کی تقلید جائز کیوں
؟؟
خوب یاد رکهیں کہ تقلید کے نام نہاد منکربهی درحقیقت دین میں
بغیرتقلید کے ایک قدم بهی آگے نہیں چل سکتے ، مثال کے طور پرایک آدمی یہ کہے کہ
” یہ حضورصلی الله علیہ وسلم کا فرمان هے ” هم اس سے پوچهتے هیں کہ کیا تو
نے یہ فرمان حضورصلی الله علیہ وسلم سے سنا هے ؟؟ یقینا اس کا جواب هوگا کہ میں نے
حضورصلی الله علیہ وسلم سے نہیں سنا ، پهر هم پوچهتے هیں کہ کہاں سے توحضورصلی الله
علیہ وسلم کا یہ قول نقل کر رها هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ فلاں آدمی نے
فلاں سے روایت کیا هے ، پهر هم پوچهتے هیں کہ کیا تو نے ان فلاں اور فلاں راویوں کودیکها
هے ؟ اوران کوازخود پرکها هے کہ وه عادل وثقہ هیں؟ اور ان میں روایت کے تمام شرائط
پائے جاتے هیں ؟؟ یقینا اس کا جواب هوگا کہ فلاں اور فلاں نے کہا هے اور لکها هے کہ
یہ سب راوی عادل وثقہ ومعتبرهیں ، اب هم پوچهتے هیں کہ یہ فلاں آدمی جوان راویوں کوثقہ
کہ رها هے کیا اس نےان تمام راویوں کودیکها هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ نہیں
بلکہ بعض نے ان کوپرکها پهراس کے بعد آنے والے ایک دوسرے کے قول پراعتماد کرتے رهے
، پهر هم پوچهتے هیں کہ اس قائل کے پاس اس قول کی صحت کی کوئی دلیل هے ؟؟ لازمی طور
پراس کا جواب هوگا کہ سوائے حسن ظن کےکوئی دلیل نہیں ، اب سوال یہ هے کہ تمام احادیث
میں اسی طرح کا حسن ظن کرکے ان کوبیان کیا جاتا هے ، تو اس طرح ایک دوسرے کی تقلید
کرکے حضورصلی الله علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا جائزهے ؟؟ اور حدیث همارا
دین هے ، کیا کوئی هے جوحدیث پر بغیرتقلید کے عمل کا دعوی کرسکے ؟؟ جب ائمہ فقہ کی
تقلید ناجائزهے تو یہ تقلید کیوں جائز هوگئ ؟؟
خوب یاد رکهیں حدیث کے میدان میں تقلید کے بغیر کوئی شخص ایک
قدم بهی نہیں چل سکتا ، گذشتہ مثال ایک عقل مند کے لیئے کافی هے
مزید وضاحت کے ساتھ دیکهیں مثلا ایک نام نہاد غیرمقلد یہ حدیث
پڑهے
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( خيركم من تعلم القرأن و
علمه ) اب اس نے حضورصلى الله عليه و سلم کی طرف یہ قول منسوب کرکے فرمایا ،هم پوچهتے
هیں دلیل دو ؟ وه جوابا کہے کہ بخاری نے روایت کیا هے
هم پوچهتے هیں بخاری کس سے یہ حدیث بیان کرتا هے ؟؟ مثلا وه
جوابا کہے کہ ‏حجاج بن منهال سے اس نے ‏شعبه سے اس نے ‏علقمه بن مرثد سے اس نے ‏سعد
بن عبيده ‏ سے اس نے ‏أبي عبد الرحمن السلمي سے اس نے حضرت ‏عثمان ‏ ‏رضي الله عنه
سے اس روایت کوبیان کیا هے
اب سوال یہ هے کہ ‏حجاج بن منهال کون هے ؟؟
‏شعبه کون هے ؟؟
‏علقمه بن مرثد کون هے ؟؟
‏سعد بن عبيده کون هے ؟؟
‏أبي عبد الرحمن السلمي کون هے ؟؟
ان تمام سوالوں کا جواب سوائے حسن ظن اور تقلید کے کوئی نہیں
دیے سکتا ،
مثلا اس حدیث کے ایک راوی شعبه کولے لیجیئے ، اس کے پورے حالات
واوصاف جاننے کے لیئے سوائے تقلید کے اور کوئی چاره نہیں هے ، اوریہی حال ذخیره احادیث
کوروایت کرنے والے تمام راویوں کا هے ، کیونکہ کسی بهی راوئ حدیث کے احوال جاننے کے
لیئے ” كتب رجال ورُواة ” كى طرف رجوع کیا جائے گا ، اور جوکچھ ائمہ اسلام
نے ان کے احوال لکهے هیں ، اسی کو ماننا پڑے گا ، اور پهر خیر سے رجال کی تمام کتابیں
جن ائمہ نے لکهی هیں ، وه سب کے سب مُقلد بهی هیں ، اور پهر کسی بهی راوی کے حالات
کے ساتھ کوئی دلائل نہیں لکهے هوئے کہ مثلا فلاں راوی بہت بڑا امام ثقہ عادل تها اس
کی دلیل یہ هے وغیره بس محض حسن ظن وتقلید کے ساتھ هی ائمہ رجال کے تحقیقات وتبصروں
کوتسلیم کیا جاتا هے
جب تمام اهل اسلام مسائل اجتهادیہ میں ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے
هیں ، اور یہ تقلید بهی دلیل وبرهان کی بنیاد پرهے ، کیونکہ مسائل فرعیہ اجتهادیہ کے
دلائل کتابوں میں مفصل طور پرموجود هیں ، تواس عمل کو چند جاهل لوگ شرک وبدعت کہتے
هیں ، اب سوال یہ هے ائمہ اربعہ کی تقلید فروعی مسائل میں ناجائزهے حالانکہ هرمسئلہ
کی دلیل بهی موجود هے تو پهر یہی تقلید حدیث کے میدان میں کیوں جائز بلکہ واجب هوجاتی
هے ؟؟؟
ایسا هی جن لوگوں نے محض عوام کو دهوکہ دینے کے لیئے یہ اصول
بنایا هے ، کہ دین میں هرمسئلہ اور هربات كى دلیل قرآن وحدیث سے دینا ضروری هے ، ایسے
لوگ اپنے بنائے هوئے اصول کے مطابق حدیث کے میدان میں مشرک وجاهل بن جاتے هیں ، جس
کی مختصر تشریح آپ نے اوپرملاحظہ کی
اور مزید یہ کہ حدیث کے تمام انواع و اقسام اجتهادى هیں ، مثلا
((الحديث الصحیح ، صحیح لغیره ، المتواتر ، الغريب ، المنقطع ، المتصل ، الضعيف ، المرسل
، المسند ، صحيح لغيره ، الحسن ، حسن لغیره ، المقلوب ، المنكر ،المشهور ، المعلق ،
المعنن و المؤنن ، المتروك ، الافراد أو الآحاد ، المعضل ، المبهم ،المسلسل ، المطروح
، الموقوف ، المستفيض ، المدلس ، العالى ، الموضوع ، المقطوع ، العزيز ، المرسل الخفى
، النازل ،التابع ، الشاهد ، المدبج ، السابق واللاحق ، المتفق والمفترق ، المؤتلف
والمختلف ، رواية الأكابر عن الأصاغر )) وغیرذالك
حدیث کے یہ چند اقسام واسماء بطور مثال ذکرکردیئے هیں ، محدثین
نے اصول حدیث کی کتابوں میں یہ اقسام واسماء بالتفصیل لکهے هیں ، اور کوئی بهی طالب
حدیث ان اقسام وانواع واسماء کو پڑهے بغیر علم حدیث کے میدان میں قدم هی نہیں رکھ سکتا
، اور یہ سب انواع واسماء اجتهادی هیں ، قرآن وحدیث سے کہیں ثابت نہیں هیں ، بعد میں
آنے والے ائمہ حدیث نے اپنے ظن واجتهاد سے لکهے هیں ، اورساری دنیا کے مسلمان مُحدثین
کی تقلید میں اس کو پڑهتے پڑهاتے چلے آرهے هیں ،
اسی طرح جرح وتعدیل کے احکام ومراتب واصول وقواعد سب محدثین
کے اجتهاد کا ثمره هیں ، اورساری دنیا کے مسلمان مُحدثین کی تقلید میں هی ان کا تعلیم
وتعلم کرتے هیں ، اسی طرح علم حدیث میں کتب وتصانیف کے انواع واسماء سب اجتهادی هیں
، جیسا محدثین نے اپنی اجتهاد سے نام رکهے هیں ساری دنیا ویسا هی وه نام تقلیدا استعمال
کرتے هیں
مثال کے طور پر(( الجوامع ، المسانيد ، السنن ، المعاجم ، العلل
، الأجزاء ، الأطراف ، المستدركات ، المستخرجات ، الناسخ والمنسوخ ، مختلف الحديث ،
الجرح والتعديل ، أصول الحديث ، غريب الحديث ، الأنساب والألقاب والكنى والأوطان والبلدان
، )) وغیرذالك
حاصل کلام یہ هے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید هو یا مُحدثین کی تقلید
هو
یہ ” تقلید فی الدین ” کے قبیل هے ، اور جمیع اهل
اسلام ائمہ اربعہ کی تقلید کے ساتھ محدثین کی بهی تقلید کرتے هیں ، لیکن فرقہ جدید
اهل حدیث دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید اورخصوصا امام اعظم کی تقلید کوشرک وبدعت وممنوع
کہتے هیں ، اب یہی لوگ حدیث کے میدان میں محدثین کی تقلید کرتے هیں ، اور جو کچھ ناجائز
الفاظ ائمہ اربعہ کے مقلدین کے لیئے استعمال کرتے هیں ، حدیث کے میدان میں یہ لوگ خود
ان الفاظ ولعن طعن کے مستحق بن جاتے هیں ، کیونکہ حدیث کے میدان میں بغیر تقلید کے
کوئی آدمی ایک قدم بهی نہیں چل سکتا
.
الله تعالی عوام الناس پرفرقہ جدید اهل حدیث کے ان وساوس کی
حقیقت کهول دے

By Mohsin Iqbal

وسوسه = مذهب حنفی رائے اورقیاس پرمبنی هے اور احادیث نبویہ کے مخالف مذهب هے

وسوسه = مذهب حنفی رائے اورقیاس پرمبنی هے اور احادیث نبویہ
کے مخالف مذهب هے
جواب = یہ وسوسہ اور جهوٹ بہت بهی پهیلایا گیا اور آج تک جاهل
لوگ عوام میں اس جهوٹ کوپهیلا رهے هیں ، فرقہ جدید اهل حدیث کی هندوستان میں پیدائش
کے بعد اس جهوٹ کوبہت فروغ دینے کی ناکام کوشش کی گئ ، الحمدلله اس وسوسہ کی ویسے بهی
اهل علم کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں تهی ، کیونکہ علماء احناف اور فقہ حنفی کسی مخفی
وپوشیده چیز کا نام نہیں هے ، اهل علم کو فقہ حنفی کا مرتبہ ومقام خوب معلوم هے ، اور
فقہ حنفی پر مشتمل کتب کا ایک بحرذخار دنیاء اسلام کے تمام کتب خانوں میں پهیلا هوا
هے ، لیکن پهر بهی اتمام حجت کے لیئے اس وسوسہ کا جواب علماء احناف نے دیا ، اور اس
وسوسہ کے جواب میں مفصل ومختصر کئ کتب لکهی جاچکی ہیں ، لیکن اس باب میں سب سے عظیم
الشان وبے مثال انتہائی جامع دلائل وبراهین سے مزین ومدلل ومفصل کتاب العلامة المحقق
الكبير المحدث العظیم الفقيه الجلیل والبحاثة المدقق الثبت الحجة المفسرالمحدث الأصولي
البارع الأديب المؤرخ الزاهد الورع الشيخ ظفر أحمد العثماني التهانوي ألدیوبندي رحمه
الله نے لکهی هے ، جس کا نام (( إع
ــْــلاءُالسُّـنـَن )) هے ، یہ عظیم الشان علمی خزانہ اکیس ( 21) ضخیم جلدوں
پرمشتمل هے ،
اور اس عظیم الشان کتاب کےدو مُقدمے هیں ، ایک مقدمہ (قــواعــد فــي عــلوم الحــديث ) کے نام سے هے ، جو
کچھ کم پانچ سو ( 500 ) صفحات پرمشتمل هے ، جوکہ اصول حدیث وعلوم حدیث وجرح وتعدیل
کے اصول وقواعد وتعریفات ونادر تحقیقات وتشریحات اور بے مثل فوائد وفرائد کا ایک قیمتی
خزانہ هے ، دوسرا مُقدمہ اجتهاد وتقلید وتلفیق وقیاس وغیره اصول فقہ کے ابحاث علمیہ
قیمہ پرمشتمل هے ، کتاب کی ترتیب ابواب فقهیہ پرمشتمل هے ، أبواب الطهارة سے لے کرآخر
باب تک هرباب مذهب احناف کے دلائل کا انبار لگا دیا گیا . جزي الله مؤلفه خيرالجزاء
وأكمل الجزاء على ما بذل من جهد مشكور وعمل عظيم وأسكنه في الفردوس الأعلى . اس کتاب
کو پڑهنے کے بعد ایک منصف عالم جہاں مؤلف علام کے تبحرعلمی کا اقرار کرے گا ساتھ هی
اس بات کا بهی اقرار واظہار کرے گا
کہ مـذهب أحـناف دلائل وبراهین کے اعتبارسے سب سے قوی ترین اورأقرب إلى السنة
مذهب هے ، باقی ایک جاهل متعصب شخص اگرانکار کرے تو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں هے
، یہ عظیم الشان کتاب فصیح وبلیغ عربی وعلمی زبان میں هے ، اور فرقہ جدید اهل حدیث
کی آج کل کی ایڈیشن علم تودرکنار عربیت سے بهی نابلد هیں ، اورعلم سے توان کومس هی
نہیں هے ، اس لیئے اس فرقہ جدید میں شامل لوگ بلا جهجهک حقائق کا انکارکرلیتے هیں
شيخ الإسلام ابن تيميہ اور ابن القيم رحمهما الله کی طرف سے
اس وسوسہ کا جواب
شيخ الإسلام ابن تيميہ رحمه الله فرماتے هیں کہ
جس نے ابوحنیفہ یا ان کے علاوه دیگر أئمة المسلمين کے متعلق
یہ گمان کیا ، کہ وه قیاس یا ( رائے وغیره ) کی وجہ سے حدیث صحیح کی مخالفت کرتے هیں
، تو اس نے خطا کی ( اوران ائمہ پرجهوٹ بولا ) یا اس نے ظن وگمان سے یا نفسانی خواهش
سے بات کی ، کیونکہ (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمه الله توضعیف حدیث کے مقابلے میں بهی
قیاس نہیں کرتے جیسے سفرمیں نبیذ تمرکے ساتهہ وضو والی حدیث اور نمازمیں قهقهة والی
حدیث کے مقابلے میں (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمه الله نے قیاس کوچهوڑدیا الخ
یہی تصریح شيخ الإسلام کے شاگرد ابن القيم نے بهی کی ہے فرمایا
کہ
امام ابوحنیفہ کے أصحاب کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام ابوحنیفہ
کا مذہب یہ ہے کہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قياس ورأي سے بہتر ہے ، اور اسی اصول پر امام
ابوحنیفہ نے اپنے مذہب کی بنیاد قائم کی ہے
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في مجموع الفتاوى : ومن
ظن بأبي حنيفة أو غيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو
غيره فقد أخطأ عليهم، وتكلم إما بظن وإما بهوى فهذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضي بالنبيذ
في السفر مخالفة للقياس وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما،
وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما.وقد بينا هذا في رسالة ” رفع الملام عن الأئمة
الأعلام ” وبينا أن أحدا من أئمة الإسلام لا يخالف حديثا صحيحا بغير عذر بل لهم
نحو من عشرين عذرا مثل أن يكون أحدهم لم يبلغه الحديث أو بلغه من وجه لم يثق به أو
لم يعتقد دلالته على الحكم أو اعتقد أن ذلك الدليل قد عارضه ما هو أقوى منه كالناسخ
أو ما يدل على الناسخ وأمثال ذلك والأعذار يكون العالم في بعضها مصيبا فيكون له أجران،
ويكون في بعضها مخطئا بعد اجتهاده فيثاب على اجتهاده وخطؤه مغفور له لقوله تعالى رَبَّنَا
لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا وقد ثبت في الصحيح أن الله استجاب
هذا الدعاء وقال « قد فعلت» ولأن العلماء ورثة الأنبياء.مجموع الفتاوى/المجلد العشرون/
إجماع أهل المدينة ومراتبه
وقال ابن القيم الجوزية رحمه الله في إعلام الموقعين : وأصحاب
أبي حنيفة رحمه الله مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث عنده أولى من القياس
والرأي وعلى ذلك بنى مذهبه كما قدم حديث القهقهة مع ضعفه على القياس والرأي وقدم حديث
الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقياس ومنع قطع السارق بسرقة أقل
من عشرة دراهم والحديث فيه ضعيف وجعل أكثر الحيض عشرة أيام والحديث فيه ضعيف وشرط في
إقامة الجمعة المصر والحديث فيه كذلك وترك القياس المحض في مسائل الآبار لآثار فيها
غير مرفوعة فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابة على القياس والرأي قوله وقول الإمام
أحمد . إعلام الموقعين عن رب العالمين ، فصل الرأي على ثلاثة أنواع

By Mohsin Iqbal

وسوسه = مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے هیں تو پهر مقلدین خلفاء راشدین کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟

وسوسه = مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے هیں اور اپنے آپ کو
حنفی شافعی مالکی حنبلی کہتے هیں ، اور حضرات خلفاء راشدین کا علم ومرتبہ ائمہ اربعہ
سے بہت زیاده هے ، تو پهر مقلدین خلفاء راشدین کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ اور ابوبکری
عمری عثمانی علوی کیوں نہیں کہلاتے ؟ حالانکہ یہ ائمہ اربعہ تو حضور صلى الله تعالى
عليه وسلم کے زمانہ کے بعد آئے هیں ، اسی طرح ان مقلدین نے قیاس اور ائمہ کی رائے کو
پکڑ لیا ، اور الله تعالی کے دین میں وه کچھ داخل کردیا جو اس میں نہیں تها ، احکام
شریعت میں تحریف کردی ، اور چار مذاهب بنا لیئے جو حضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور
صحابہ کرام کے زمانہ میں نہیں تهے ، صحابہ کرام کے اقوال کو چهوڑدیا ، اور قیاس کو
اختیارکرلیا ، حالانکہ صحابہ کرام نے قیاس کو چهوڑنے کی تصریح کی هے ، اور انهوں نے
فرمایا أول من قاس إبليس سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا تها
جواب = یہ وسوسہ کئ وساوس کا مجموعہ هے جیسا کہ ظاهر هے ، اور
ممکن هے آپ نے یہ وساوس کئ مرتبہ سنے بهی هوں ، لیکن آپ کو یہ سن کرحیرانگی هوگی کہ
ان تمام وساوس کو سب سے پہلے پیش کرنے والے شیعہ وروافض تهے ، اور ان تمام وساوس کا
جواب آج سے تقریبا آٹھ سو ( 800 ) سال پہلے اهل سنت والجماعت کی طرف سے شيخ الإسلام
ابن تيميہ رحمہ الله بڑی تفصیل کے ساتھ دے چکے هیں ، اور آج کل یہ وساوس شیعہ وروافض
سے چوری کرکے فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل جہلاء پهیلا رهے هیں ، فرقہ جدید اهل حدیث
میں شامل جہلاء کی خوش قسمتی هے کہ یہ فرقہ جدید شيخ الإسلام ابن تيميہ رحمہ الله کے
زمانہ میں نہیں تهے ، ورنہ ان کا بهی خوب رد کرتے جس طرح کہ روافض کا رد کیا
شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله نے اپنی کتاب (( منهاج السنة
النبوية )) میں ان مذکوره بالا وساوس کا تفصیلی اور منہ توڑ جواب دیا هے
اور یہ ” كتاب منهاج السنة النبوية ” روافض وشیعہ
کی رد میں ایک عظیم کتاب هے ، اولا میں شيخ الإسلام کے جوابات کا خلاصہ ذکرکرتا هوں
، پهر شيخ الإسلام کی اصل عبارت ذکرکروں گا ، شيخ الإسلام نے پہلے ” قال الرافضي
” کہ کر اس کے وساوس نقل کیئے جس کا ذکراوپرهوچکا ، لہذا میں مختصرا شيخ الإسلام
کے جوابات نقل کرتا هوں
1 = رافضى وسوسه . یہ مذاهب
حضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم کے زمانہ میں موجود نہیں
تهے ؟
جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
حضرات ائمہ اربعہ رحمهم الله کے مسائل وهی هیں ، جو حضور صلى
الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم سے نقل درنقل هوتے چلے آرهے هیں
، باقی یہ بات کہ ائمہ اربعہ حضور صلى الله تعالى عليه وسلم کے زمانہ میں نہیں تهے
تو اس میں کیاحرج هے ، امام بخاری امام مسلم امام ابوداود امام حفص یا امام ابن کثیر
اور امام نافع وغیرهم ائمہ کرام بهی حضور صلى الله تعالى عليه وسلم کے زمانہ میں نہیں
تهے
2 = رافضى وسوسه . مقلدین نے
اقوال صحابہ کوچهوڑدیا اور قیاس کوپکڑلیا ؟
جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
یہ رافضی کا جهوٹ هے مذاهب اربعہ کی کتابوں کودیکهہ لیجیئے وه
اقوال صحابہ سے بهری پڑی هیں ، لہذا ائمہ اربعہ اور جمیع أهل السنة صحابہ کرام رضی
الله عنهم کے اقوال سے باقاعده استدلال کرتے هیں ، اور ان کے اقوال کو اپنے لیئے حجت
ودلیل سمجهتے هیں اور ان پرعمل کرتے هیں ،
اور اهل سنت کے نزدیک صحابہ کرام کے اجماع سے خروج ومخالفت جائزنہیں
هے ، حتی عام ائمہ مجتهدین نے یہ تصریح کی هے کہ همارے لیئےاقوال صحابہ کرام سے بهی
خروج ومخالفت جائزنہیں هے
.
(( جب کہ اس کے برعکس فرقہ
جدید اهل حدیث کا مذهب یہ هے کہ صحابی کا قول ، فعل ، فہم ، حجت ودلیل نہیں هے ، لہذا
اهل سنت کے طریق پرکون هوا فرقہ جدید اهل حدیث یا مذاهب اربعہ ؟؟
))
3 = رافضى وسوسه . مقلدین نے
چارمذاهب گهڑلیئے جوحضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم کے
زمانہ میں نہیں تهے ؟
جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
اگر رافضی کی مراد یہ هے کہ ائمہ أربعه نے یہ مذاهب گهڑ لیئے
هیں اورصحابہ کرام کی مخالفت کی ، تو یہ رافضی کا جهوٹ هے ائمہ أربعه پر ، بلکہ ان
ائمہ میں سے هرایک نے کتاب وسنت کی اتباع کی دعوت هی دی هے
.
((کیا کتاب وسنت کے داعی کی
تقلید واتباع کرنے والا ( معاذالله ) مشرک وبدعتی هوتا هے ؟؟؟
))
4 = رافضى وسوسه . مقلدین اپنے
آپ کو ابوبکری ، عمری ، وغیره نہیں کہتے یعنی مذهب أبي بكر وعمر کیوں اختیار نہیں کرتے
؟؟
جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
سبب اس کا یہ هے کہ ابوبکر وعمر وغیرهما رضی الله عنهم نے دینی
مسائل کو کتابی شکل میں جمع نہیں کیئے ، بخلاف ائمہ اربعہ کے کہ خود انهوں نے اور ان
کے معتمد ومعتبر شاگردوں نے ان کے بیان کرده تمام مسائل واجتهادات کو کامل طور پرجمع
کردیا ، اس لیئے ان مسائل کی نسبت ائمہ اربعہ کی طرف هوگئ ، اور ان مسائل میں ان ائمہ
کی تقلید واتباع کرنے والے حنفی شافعی وغیره کہلائے
(( یہاں سے شیخ الاسلام نے
فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل بعض جہلاء کا یہ وسوسہ بهی باطل کردیا کہ لوگوں نے بعد
میں نے یہ مسائل امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرلیئے هیں یہ ان کے اپنے مسائل نہیں هیں
))
اسی طرح امام حفص یا امام ابن کثیر اور امام نافع وغیرهم قُراء
کرام کی قراآت ان کی اپنی ایجاد نہیں هے ، بلکہ ان قُراء کرام کی قراآت توخود حدیث
صحیح سے ثابت هیں ، قال صلى الله عليه وسلم إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرؤوا
ما تيسر منه. أخرجه البخاري ومسلم عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه وأخرجه البخاري من
حديث ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أقرأني جبريل على حرف فراجعته فلم أزل
أستزيده ويزيدني حتى انتهى إلى سبعة أحرف
.
اور حضرات صحابہ سے تواترسے منقول هوتی چلی آرهی هیں ، لہذا
ان قراآت کی نسبت حضرات قُراء کرام کی طرف هونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قراآت توان
کی اپنی ایجاد هیں ، اسی فقہ اورمذاهب اربعہ کی ائمہ کی طرف نسبت سے یہ لازم نہیں آتا
کہ یہ فقہ ومسائل فقہ تو ائمہ کی اپنی ایجاد هیں
5 = رافضى وسوسه . صحابہ کرام
نے قیاس کو چهوڑنے کی تصریح کی هے ، اور انهوں نے فرمایا أول من قاس إبليس سب سے پہلے
قیاس ابلیس نے کیا تها٠
جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
جمہورعلماء قیاس کا اثبات کرتے هیں ، اور انهوں نے فرمایا کہ
صحابہ کرام سے اجتهاد بالرأي اور قیاس ثابت هے ، جیسا کہ ان سے قیاس کی مذمت بهی ثابت
هے ، لہذا دونوں قول صحیح هیں ، پس مذموم قیاس وه هے جوکسی نص کے مخلف ومعارض هو ،
جیسے ان لوگوں کا قیاس جنهوں نے کہا ( إنما البيع مثل الربا ) الخ
لہذا ائمہ اربعہ ودیگرائمہ مجتهدین کا قیاس کسی نص کے مخالف
نہیں هوتا
شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله
کی جوابات کا خلاصہ وتعبیر وتشریح بتغیر یسیر آپ نے ملاحظہ کیا
، یہاں سے آپ کو یہ بهی پتہ چل گیا کہ فرقہ جدید اهل حدیث نے یہ سب وساوس شیعہ سے چوری
کیئے هیں ، اور عقل مند آدمی کے لیئے اس میں یہ سبق وعبرت بهی واضح هے کہ یہ سب باطل
وساوس هیں ، جس کو فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل جاهل شیوخ گردانتے رهتے هیں ، اگران
وساوس میں کوئی وسوسہ حق وسچ هوتا تو شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله نے جوابا یہ
کیوں نہیں کہا کہ اے رافضی تیرا فلاں وسوسہ حق هے مثال کے طور پر رافضی کا وسوسہ کہ
( مقلدین نے چارمذاهب گهڑلیئے هیں ) شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله نے اس کے جواب
میں یہ کیوں نہیں کہا کہ
اے رافضی تیرا یہ اعتراض بالکل صحیح وحق هے ؟؟؟
اوراسی طرح دیگروساوس کا جواب ( تصدیق ) میں کیوں نہیں دیا ؟؟؟
تمام وساوس کو باطل وفاسد وکاذب کیوں قرار دیا ؟؟؟

By Mohsin Iqbal

وسوسه = تقليد مذاهب اربعہ میں کیوں منحصر هے ؟ مجتهدین تو اور بهی بہت هیں صرف چارائمہ کی تقلید کیوں کی جاتی هے ؟

وسوسه = تقليد مذاهب اربعہ میں کیوں منحصر هے ؟ مجتهدین تو اور
بهی بہت هیں صرف چارائمہ کی تقلید کیوں کی جاتی هے ؟
جواب = اس وسوسہ کا جواب بہت سارے ائمہ اسلام نے بالتفصیل دیا
هے ، لیکن میں اس کا جواب حافظ ابن رجب حنبلي رحمہ الله کی زبانی نقل کروں گا ، إمام
ابن رجب رحمہ الله حنبلی مذهب کے مستند ومعتمد علماء میں سے هیں ، حافظ ابن القیم حنبلی
رحمہ الله کے خصوصی شاگرد هیں ، ساتویں صدی هجری کے عالم هیں ، حافظ ابن رجب حنبلي
رحمہ الله نے اس وسوسہ کا جواب ساتویں صدی هجری میں دیا ، اور ایک مستقل رسالہ بنام
(( الرد على من اتبع غير المذاهب الأربعة )) تحریرفرمایا ، یعنی ان لوگوں پر رد جومذاهب
اربعہ کے علاوه کسی اور کی تقلید کرتے ہیں ، اسی رسالہ کے (( ص 33)) پر سوال خود نقل
کرتے هیں ، اور پهر اس کا رد کرتے هیں
فإن قيل : نحن نسلِّم منع عموم الناس من سلوك طريق الاجتهاد
لما يفضي ذلك إلى أعظم الفساد لكن لا نسلم منع تقليد إمام متبع من أئمة المجتهدين غير
هؤلاء الأئمة المشهورين. ؟؟
سوال = هم یہ بات تو تسلیم کرتے هیں کہ عوام الناس کو اجتهاد
کے راستے پرچلنے سے منع کرنا ضروری هے ( کیونکہ اگرعوام کواجتهاد کی راه پرلگا دیا
جائے ) تو اس میں بہت بڑا فساد وقوع پذیر هوگا ، لیکن هم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ
عوام کو صرف ائمہ اربعہ کی تقلید کرنی هے کسی اور امام مجتهد کی نہیں
.
قيل: قد نبهنا على علة المنع من ذلك وهو أن مذاهب غير هؤلاءلم
تشتهر ولم تنضبط فربما نسب إليهم ما لم يقولوه أو فهم عنهم ما لم يريدوه وليس لمذاهبهم
من يذب عنها وينبه على ما يقع من الخلل فيها بخلاف هذه المذاهب المشهورة.اه
ـ
جواب = عوام کو ائمہ اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی دوسرے امام
مجتهد کی تقلید سے منع کرنے کی وجہ اورعلت پرهم نے تنبیہ کردی ، اور وه یہ هے کہ مذاهب
اربعہ کے علاوه کسی اور امام مجتهد کا مذهب مشہور ومنضبط نہیں هوا ، پس بہت دفعہ ان
کی طرف وه بات منسوب کی جائے گی ، جوانهوں نے نہیں کہی ، یا ان سے کسی بات کو سمجها
جائے جوان کی مراد نہ هوگی ، اور ان کی مذاهب کا دفاع کرنے والا بهی کوئی نہ رها ،
جو ان کے مذاهب میں واقع هونے والے خلل ونقص پرتنبیہ کرے ، بخلاف ان مذاهب اربعہ مذاهب
مشهوره کے( کہ ان کے تمام مسائل بسند صحیح جمع ومنضبط هیں اور ان کے علماء بهی برابر
چلے آرهے هیں
).
إمام ابن رجب حنبلي رحمه الله نے جو کچهہ فرمایا وه بالکل واضح
هے ، اور حق هے ، حتی کہ کسی کے لیئےآج یہ بهی ممکن نہیں کہ مذهب صحابہ کو معلوم کرسکے
، اگرچہ بڑے بڑے مسائل میں کیوں نہ هو ، مثلا نماز هی کو لے لیں جو کہ أركان إسلام
میں سے دوسرا بڑا رکن هے ، کسی کے لیئے یہ ممکن نہیں هے کہ وه نماز کے فرائض و واجبات
وسنن ومستحبات ومکروهات وغیره کی تفصیل بیان کرکے اس کو سیدنا ابوبکر صديق رضي الله
عنه کی طرف منسوب کرے یا دیگر صحابہ رضي الله عنهم کی طرف ، اسی علت و وجہ ( کہ ان
کے مذاهب محفوظ وجمع نہیں هوئے ) کی بنا پر ائمہ كبار نے مذاهب غیرمشہوره کی عدم تقلید
کا فتوی دیا ، حتی کہ شافعي مسلک کے بہت بڑے امام وفقیہ إمام الحرمين أبو المعالي جُوَيني
رحمہ الله نے محققین کا اجماع اس پرنقل کیا هے
لہذا إمام الحرمين اپنی کتاب (( البرهان
“2/744”)) میں فرماتے هیں
أجمع المحققون على أن العوام ليس لهم أن يتعلقوا بمذاهب أعيان
الصحابة رضي الله تعالى عنهم بل عليهم أن يتبعوا مذاهب الأئمة الذين سبروا ونظروا وبوبوا
الأبواب وذكروا أوضاع المسائل وتعرضوا للكلام على مذاهب الأولين والسبب فيه أن الذين
درجوا وإن كانوا قدوة في الدين وأسوة للمسلمين فإنهم لم يفتنوا بتهذيب مسالك الاجتهاد
وإيضاح طرق النظر والجدال وضبط المقال ومن خَلْفَهُم مِنْ أئمةِ الفقهِ كَفَوا مَنْ
بَعْدَهُمُ النظرَ في مذاهبِ الصحابةِ فكان العاميُ مأموراً باتباعِ مذاهبِ السابرين.
اه
ـ
إمام الحرمين یہ اجماع چوتهی صدی هجری میں نقل کر رهے هیں ،
آج پندرهویں میں جو لوگ مختلف شیطانی وساوس کے ذریعے عوام کو دین میں آزاد کر رهے هیں
، اورهر کس وناکس کو مجتهد وامام کا درجہ دے رهے هیں ، ایسے لوگ کتنی بڑی غلطی کے اندر
مبتلا هیں اس کا اندازه آپ خود لگالیں إمام الحرمين کی اس قول کے متعلق إمام ابن حجر
الهيتمي اپنی کتاب ( الفتاوى الفقهية الكبرى ) میں فرماتے هیں کہ محدث ابن الصلاح نے
اپنی کتاب الفتاوی ( كتاب الفتيا ) میں إمام الحرمين کے اس قول پر هی جزم واعتماد کیا
هے ، اور مزید یہ بهی فرمایا کہ تابعین کی بهی تقلید نہ کرے ، اور نہ اس امام کی جس
کا مذهب مُدوَّن وجمع نہیں هوا ، تقلید صرف ان ائمہ کی کرے گا جن کے مذاهب مُدوَّن
وجمع اور پهیل گئے هیں
قال الإمام ابن حجر الهيتمي في (الفتاوى الفقهية الكبرى
“8/340”) وأما ابن الصلاح فجزم في كتاب الفتيا بما قاله الإمام أي إمام الحرمين
وزاد أنه لا يُقَلِّدَ التابعينَ أيضاً ولا مَنْ لم يُدوَّن مذهبه وإنما يقلد الذين
دُوِّنَتْ مذاهبهم وانتشرت حتى ظهر منها تقييد مطلقها وتخصيص عامها بخلاف غيرهم فإنه
نقلت عنهم الفتاوى مجردة فلعل لها مكملا أو مقيدا أو مخصصا لو انبسط كلام قائله لظهر
خلاف ما يبدو منه فامتنع التقليد إذاً لتعذرِ الوقوفِ على حقيقة مذاهبهم. اه
ـ
ان ائمہ اسلام کے اقوال وتصریحات کا خلاصہ وحاصل یہ هے کہ ائمہ
اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی اور امام ومجتهد کی تقلید ممنوع هے ، کیونکہ ائمہ اربعہ
کے علاوه کسی کسی اور امام ومجتهد کی تمام اجتهادات ومذهب جمع ومحفوظ نہیں رها ، اور
یہ جو کچهہ میں نے ذکر کیا هے علماء امت نے ( كتب الأصول ) میں یہی تصریح کی هے
یہاں سے آپ آج کل کے فرقہ جدید اهل حدیث کی جہالت وحماقت کا
بهی اندازه لگالیں ، جو رات دن عوام کوگمراه کرنے کے لیئے یہ نعره لگاتے هیں کہ مذاهب
اربعہ کی تقلید توشرک وبدعت هے ، جب کہ امت مسلمہ کے کبارعلماء میں کسی نے یہ بات نہیں
کی ، ایک ایک عالم نے دین کے تمام شعبوں میں بے شمار کتب ورسائل لکهے ، لیکن کسی مستند
عالم نے مذاهب اربعہ کی رد میں کوئی کتاب نہیں لکهی ، حتی کہ کوئی رسالہ تک نہیں لکها
، لیکن اس کے برعکس علماء امت نے عوام کے لیئے اوراجتهاد سے عاجز علماء کے لیئے ائمہ
اربعہ کی تقلید کے لازم هونے کا صرف فتوی وحکم هی نہیں دیا ، بلکہ اس باب میں مستقل
رسائل ومفصل تصریحات لکهیں ، اور اگر یہ تقلید مذاهب اربعہ اتنا بڑا شرک هے ، جیسا
کہ فرقہ جدید اهل حدیث کا دعوی هے ، تو پهر صاف بات یہی هے کہ چوده سو سال سے پوری
امت مسلمہ میں کتنے بڑے بڑے ائمہ وعلماء ومحدثین ومفسرین ومحققین وفقهاء گذرے هیں ان
سب میں ( معاذالله ) منافقت کا ماده موجود تها ، کہ امت مسلمہ میں اتنا بڑا شرک شروع
هوچکا ، اور ان ائمہ اسلام میں سے کسی نے ایک کلمہ تک مذاهب اربعہ کے خلاف نہیں کہا
، اورامت کو اس شرک سے نہیں ڈرایا ، لیکن درحقیقت اصل بات یہ هے فرقہ جدید اهل حدیث
میں شامل جہلاء نے هی عوام الناس کو دین میں آزاد بنانے اور اپنی اندهی تقلید پرمجبور
کرنے کے لیئے یہ سارے وساوس گهڑے هیں. هدانا الله و إياهم إلى صراط الذين أنعم عليهم

By Mohsin Iqbal